مہر خبررساں ایجنسی نے وائس آف امریکہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ صحافیوں کے تحفظ کی عالمی تنظیم " کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس" کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت لگ بھگ 200 صحافی جیلوں میں قید ہیں۔ فریڈم ہاﺅس نامی تنظیم پہلے ہی اپنی تازہ رپورٹ میں کہہ چکی ہے کہ دنیا بھر میں آزادی صحافت انتہائی کم درجے تک پہنچ چکی ہے۔اطلاعات کے مطابق دنیا میں " صرف 13 فیصد آبادی آزادی صحافت پر کاربند ہے جہاں سیاسی امور کی بھرپور کوریج ہوتی ہے۔ صحافیوں کا تحفظ یقینی ہے، ذرائع ابلاغ میں ریاستی مداخلت نہ ہونے کے برابر ہے اور صحافت کو قانونی یا اقتصادی دباؤ کا سامنا نہیں ہے۔"
تنظیم کے مطابق ترکی میں گزشتہ ایک برس سے آزادی صحافت شدید خطرے سے دوچار ہے اور اس دوران صحافتی اداروں اور صحافیوں کے خلاف سرکاری کریک ڈاؤن دیکھنے میں آچکا ہے۔صحافیوں کے حقوق کی ایک اور تنظیم ”رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز“ نے اپنی رپورٹ میں ترکی کو آزادی صحافت کی صورتحال کی فہرست میں 180 ملکوں میں سے 151 نمبر پر رکھا ہے۔
مشرقی اور جنوب افریقی ملکوں میں بھی صحافیوں کوشدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ گو کہ کینیا کے 2010ءکے آئین میں حکومت کو میڈیا کے امور میں مداخلت سے روکا گیا ہے لیکن یہاں صحافیوں کو ہراساں کیے جانے کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا۔
مصر میں صدر عبدالفتاح السیسی کی دور اقتدار میں آزادی صحافت کی صورتحال تنزلی کا شکار ہوئی جو کہ اقتدار میں آنے کے بعد سے تین مرتبہ صحافیوں اور ادیبوں سے ذاتی طور پر مل چکے ہیں جس میں اطلاعات کے مطابق انہوں نے حکومت کی طرف سے متعین کردہ حدود کو واضح کیا۔سی پی جے کے مطابق گزشتہ سال مصر میں 23 صحافیوں کو پابند سلاسل کیا گیا جو کہ چین کے بعد سب سے زیادہ مقید صحافیوں کی تعداد ہے۔چین میں بھی صحافیوں کے صورتحال مخدوش ہے جہاں معلومات کی فراہمی سے متعلق سخت قوانین متعارف کروائے گئے ہیں۔ امریکہ اور یورپی ممالک میں بھی صحافیوں کو سخت مشکلات کا سامنا ہے امریکہ اور یورپی ممالک میں آزادی بیان صرف کاغذی اور زبانی حد تک رہ گيا ہے۔
آپ کا تبصرہ